تمہاری آنکھ میں اک جھلملاتا راز آیا
سنا ہے رات کو خوابوں میں پھر نواز آیا
ڈھونڈ کر لائی ہے آوارگی تمہارا نقش
جنوں کے حصے میں لو آج ارتکاز آیا
ہے جس میں صرف خیالوں کی ایک کوزہ گری
اے جان ایسی محبت سے میں تو باز آیا
چھین کر تجھ سے تیرا دل تجھی کو سونپے گا
چلو کہ آج مقابل کرشمہ ساز آیا
جبین شوق کو رکھتا ہوں ترے قدموں میں
میں ہو کے جنت و دوزخ سے بے نیاز آیا
حجاب اٹھنے لگے بزم میں اعلان ہوا
نظر اٹھا اے حقیقت ترا مجاز آیا
کبھی رچی تھی جس میں زندگی کی شہنائی
وہ لمحہ آج دبے پاؤں بے آواز آیا