رنگوں کی ۔ خوشبوؤں کی نوا ہو گیا ہوں میں
لمحوں کی اسیری سے رہا ہو گیا ہوں میں
سنتے ہیں تمہیں خواب ستاتے ہیں رات بھر
سنتے ہیں تیرا حرف دعا ہو گیا ہوں میں
کچھ دیر تمنا سے کہو چین سے بیٹھے
ہاتھوں کی لکیروں سے خفا ہو گیا ہوں میں
کن شوخ اداؤں کو ترستی ہے بصارت
بوجھو تو بھلا کس سے جدا ہو گیا ہوں میں
اس روشنی سے بندھ گیا دامن امید کا
شاموں کے دھندلکوں میں دیا ہو گیا ہوں میں