نیند آتی نہیں اور رات گزر جاتی ہے
تم آتے نہیں اور عمر گزر جاتی ہے
باد سحر,گل کی خوشبو راس نہیں آتی
تم جو آتی ہو مری سانس سنورجاتی ہے
مجھے معلوم ہے کہ ترے چاہنے والے تو بہت ہیں
تو ہی بتا تیرے سوا میری نظر کیاں جاتی ہے
تیرے پیارمیں کتنے حسیں دن گزارے میں نے
اب جو سوچتا ہوں اک درد سی اٹھ جاتی ہے
رضاْْ میں کیا کہوں کہ وہ میرے لیے کیا تھے
یہ سوچتے ہوئے مری ہر رات گزر جاتی ہے