یہ وہ نظم ہے جو میں نے اک ناول سے متاثر ہوکر لکھی ہے۔ گو کہ ناول کا اختتام اس نظم کے اختتام سے یکسر مختلف ہے۔ اس نظم میں، میں نے عشق مجازی سےعشق حقیقی تک کی داستان قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ نظم ١٩ سال کی عمر میں لکھی۔ اس نظم میں ٤ مصرعوں کا اک بند کسی مخصوص کیفیت کو بیان کررہا ہے۔ اب آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔ داد و تحسین کا مستحق بننا چاہتا ہوں۔ اصلاحی، تنقیدی اور حوصلہء افزا آراء کا طلبگار ہوں۔ شکریہ
بڑے حسین لمحے تھے تری محفل میں رہنے کے
ہزاروں لفظ لب پر تھے مگر تھے چند کہنے کے
میرا مرہم تھی تیری زلف کی ٹھنڈی ہوا جانا
ذرا زلفیں بکھیرو نا ہے گہرے زخم سہنے کے
یہ بارش، یہ فضائیں ساتھ ہیں میرے
ترے احساس سے مہکی ہوائیں ساتھ ہیں میرے
یہ دنیا چیز کیا جانا تری آنکھوں کی تشبیح ہے
تری قربت میں رہتے کہکشائیں ساتھ ہیں میرے
یہ تارے، چاند اور جگنوں تمہارے استعارے ہیں
اندھیری رات کی تنہائی میں میرے سہارے ہیں
تری آنکھوں کی گہرائی میں ڈوبا ہوں تو یہ جانا
تری آنکھوں میں قدرت نے کئی دریا اتارے ہیں
میری ہمدم میرے ہاتھوں کو ہاتھوں سے جدا نہ کر
حسیں راتوں کی گرمی کو تو راتوں سے جدا نہ کر
میں تڑپا ہجر میں صبحِ روشن کیلئے جانا
میری بانہوں سے اپنے سر کو اب تو یوں جدا نہ کر