سوئے حقیقت - ١
Poet: Ahsan Mirza By: Ahsan Mirza, Karachiیہ وہ نظم ہے جو میں نے اک ناول سے متاثر ہوکر لکھی ہے۔ گو کہ ناول کا اختتام اس نظم کے اختتام سے یکسر مختلف ہے۔ اس نظم میں، میں نے عشق مجازی سےعشق حقیقی تک کی داستان قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ نظم ١٩ سال کی عمر میں لکھی۔ اس نظم میں ٤ مصرعوں کا اک بند کسی مخصوص کیفیت کو بیان کررہا ہے۔ اب آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔ داد و تحسین کا مستحق بننا چاہتا ہوں۔ اصلاحی، تنقیدی اور حوصلہء افزا آراء کا طلبگار ہوں۔ شکریہ
بڑے حسین لمحے تھے تری محفل میں رہنے کے
ہزاروں لفظ لب پر تھے مگر تھے چند کہنے کے
میرا مرہم تھی تیری زلف کی ٹھنڈی ہوا جانا
ذرا زلفیں بکھیرو نا ہے گہرے زخم سہنے کے
یہ بارش، یہ فضائیں ساتھ ہیں میرے
ترے احساس سے مہکی ہوائیں ساتھ ہیں میرے
یہ دنیا چیز کیا جانا تری آنکھوں کی تشبیح ہے
تری قربت میں رہتے کہکشائیں ساتھ ہیں میرے
یہ تارے، چاند اور جگنوں تمہارے استعارے ہیں
اندھیری رات کی تنہائی میں میرے سہارے ہیں
تری آنکھوں کی گہرائی میں ڈوبا ہوں تو یہ جانا
تری آنکھوں میں قدرت نے کئی دریا اتارے ہیں
میری ہمدم میرے ہاتھوں کو ہاتھوں سے جدا نہ کر
حسیں راتوں کی گرمی کو تو راتوں سے جدا نہ کر
میں تڑپا ہجر میں صبحِ روشن کیلئے جانا
میری بانہوں سے اپنے سر کو اب تو یوں جدا نہ کر
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






