تو بھی کہتی ہے کہ سودائی ہے میری جان پہ بن آئی ہے زرا بھی غم نہیں اوروں کا مجھے تو کہے تو میری رسوائی ہے شبِ ہجراں نے ستایا ہے مجھے ستم کیسا یہ وفا لائی ہے نہیں مرغوب کرنے کا کوئی ہنر پھر بھی ہر اِک صورت شیدائی ہے