سوچتا ہوں وه اب کسے خفا کرتی ہوگی
میری طرح مجبوریوں سے وفا کرتی ہوگی
جب تک شامل ہوں اس کی آرزوء میں
مجھے یقین ہے وہ زندگی کی دعا کرتی ہوگی
آئینہ طنز کرتا ہوگا آنکھیں بھر آتی ہوگیں
وہ جب مجبوریوں میں سجا کرتی ہوگی
میں بھی یاد آتا ہونگا اسے جب کبھی
وہ پھر ویراں راستوں کو تکا کرتی ہوگی
اتنا تو واقف ہوں میں اس کے مزاج سے
میرے نام پر گھر والوں سے لڑا کرتی ہوگی
روتا ہوں شب بھر اس کی تصویر دیکھ کے
وہ بھیگی آنکھوں سے خواب دیکھا کرتی ہوگی
وہ دارِ ضبط میں یوں بھی سرِ شام کہیں
آنسو کی برف سے اکثر جلا کرتی ہوگی
رکھتی ہوگی آج بھی وہی پیاس لبوں پے
رسمِ دنیا میں ہونٹوں سے دغا کرتی ہوگی
مدتوں پہلے تجھ سے بچھڑی ہوی لڑکی احسن
اب بھی تجھے ہر موڑ پے سنبھالا کرتی ہوگی