روپ کی وادیاں سجاؤ دل میں
سوچتے کیا ہو اتر جاؤ دل میں
زندگی اور کسے کہتے ہیں
گردشوں کو ذرا بتاؤ دل میں
نہ رہے ڈر فریب ہستی کا
خون کو اسطرح گھماؤ دل میں
ہر طرف تم ہی تم نظر آؤ
دیپ ایسے کوئی جلاؤ دل میں
تم ہی کہتے تھے ہجر عارضی ہے
ہاں تو پھر لوٹ کے اب آؤ دل میں
دیکھ پھر کس طرح دھڑکتا ہے
میرے احساس کو جگاؤ دل میں
شعر تکمیل کو ترستے ہیں
پھول آ کر ذرا کھلاؤ دل میں