سپنا
Poet: Gulfishan Tahir By: Gulfishan Tahir, Karachiکانٹوں کا سفر تھا، تھی نکلی میں تنہا
معلوم تھی منزل، نہ رستہ پتا تھا
تھی میں جس کے پیچھے، تھا آگے جو میرے
وہ اجنبی شخص بس چلا جا رہا تھا
نہ جانے تھا کیا وقت، گھڑی جانے کیا تھی
کب اس راہ پر تن تنہا چلی تھی
کروں یاد تو یاد آتا نہیں، بس
تھی سوئ میں جب، وہ پہر رات کا تھا
خامشی تھی ہر سو، تاریکی تھی چھائ
وہ پل تھا مناسب، نہ صبح تھی آئ
بے چین مری روح، اگرچہ یہ پوچھے
کیوں دل اس کا پیچھا کئے جا رہا تھا
عجب کشمکش تھی، عجب سی کشش تھی
جو کھینچ رھی مجھکو، اس کی طرف تھی
گماں تھا مجھے، ہے یہ وہی کہ شاید
ابھی تک جو خوابوں میں آتا رہا تھا
میں منتظر اس کی، ہاں سچ ہے بہت تھی
اسے دیکھنے کی، ہاں خواھش بہت تھی
بیگانہ نہیں وہ، تھا اپنا کوئ وہ
نہ جانے کیوں دل کو یہی آسرا تھا
تھی مدت اب، گزر چکی چلتے چلتے
نہ پہنچی میں آگے، نہ وہ پلٹا پیچھے
“ نہ ہار تو ھمت “، یہ بولے میرا من
کہ دیدار تک تو ابھی نہ ہوا تھا
کوشش میں اسی، ذرا پاس پہنچ کر
بڑھایا میں نے ہاتھ، شانے تلے تک
جو پلٹا اسے، گئ کھل آنکھ میری
یہ جانا، دیکھا آج، پھر سپنا تھا !
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






