سپنے بننے کا حساب رکھا ہے
درد کے سہنے کا عذاب رکھا ہے
ساون کی رات میں جنوں کا لمحہ
جلتی آنکھوں میں خواب رکھا ہے
جدائی کا موسم اور اذیت کی بارش
ہم نے مرجھایا ہوا گلاب رکھا ہے
نڈھال صبح میں بے بسی کا سوال
دل کے خانے میں جواب رکھا ہے
روئے چاند پے ہے حسن کی چلمن
دل کے چہرے پے نقاب رکھا ہے