سیم وزر کی کوئی تنویر نہیں چاہتی میں
کسی شہزادی سی تقدیر نہیں چاہتی میں
مکتبِ عشق سے وابستہ ہوں کافی ہے مجھے
داد ِ غالب ، سند ِ میر نہیں چاہتی میں
فیض یابی تری صحبت ہی سےملتی ہےمجھے
کب ترے عشق کی تاثیر نہیں چاہتی میں
قید اب وصل کے زنداں میں تو کر لے مجھ کو
یہ ترے ہجر کی زنجیر نہیں چاہتی میں
اب تو سپنے میں وہ شخص آتا نہیں ہے عنبر
اب کسی خواب کی تعبیر نہیں چاہتی میں