رلاتی ہیں ، ستاتی ہیں راتیں دسمبر کی
تری یادیں لاتی ہیں راتیں دسمبر کی
کہتے ہیں لوگ دسمبر کو سردیوں کا بادشاہ
کیوں میرا جی جلاتی ہیں راتیں دسمبر کی
ترے بازوؤں کے سرہانے جو نہیں رہے
تو تمام شب جگاتی ہیں راتیں دسمبر کی
ہنستی ہیں میری مایوس زندگی پہ پل پل
میرا مذاق اُڑاتی ہیں راتیں دسمبر کی
سینے میں ہجر کے سوگ ہیں ترے بعد
درد میرے بڑھاتی ہیں راتیں دسمبر کی
کالی سیاہ شبیں ، صدائیں بے شکل سی کچھ
نام ترا ہی بلاتی ہیں راتیں دسمبر کی
نہالؔ میں تڑپتا ہوں سسکتا ہوں روتا ہوں
سینہ چیڑ جاتی ہیں راتیں دسمبر کی