ترک الفت کا بہانا کوئی تم سے سیکھ جائے
نت نئے تیور دکھانا کوئی تم سے سیکھ جائے
بن سنور کر آنا جانا کوئی تم سے سیکھ جائے
تیر نظروں کے چلانا کوئی تم سے سیکھ جائے
ہوش عالم کے اڑانا کوئی تم سیکھ جائے
ہائے ! یوں بجلی کوئی تم سے سیکھ جائے
کس طرح لٹتی ہے خلقت آرزوئے وصل میں
روگ سا دل کو لگانا کوئی تم سے سیکھ جائے
فتنہ گر مشہور یاں کس کا لقب، محفل میں ہے؟
بزم میں اک حشر اٹھانا کوئی تم سے سیکھ جائے
دم بخود ساری فضا ہے، سانس روکے ہیں بشر
خاک وعدوں کی اڑانا کوئی تم سے سیکھ جائے
دل یوں دیوانوں کے مٹھی میں لئے پھرتا ہے کون ؟
عشق میں آنکھیں دکھانا کوئی تم سے سیکھ جائے
رات دن جوش جوانی ہی جسے درکار ہے
دلبری کا وہ فسانہ کوئی تم سے سیکھ جائے
بے سبب آنکھیں دکھاتے ہو ہمیں تم کس لئے ؟
آرزوؤں کو مٹانا کوئی تم سے سیکھ جائے
گفتگو میں تحکم تو ہے لہجے میں غنا
اس طرح محفل پہ چھانا کوئی تم سے سیکھ جائے
بات رومی نے کہی ہے جو ، غلط ہر گز نہیں
بندہ پرور ! قہر ڈھانا کوئی تم سیکھ جائے