شادی کا پیغام (پروپوزل)
Poet: ندیم مراد N A D E E M M U R A D By: ندیم مراد N A D E E M M U R A D, UMTATA RSAرنگ اور روپ کی تقدیس بڑھانے آؤ
پیار اور پیار کا احساس جگانے آؤ
اور جزبات کے برسوں سے بُجھے سرد دیے
کہکشاؤں کی طرح ان کو جلانے آؤ
دل پہ پَژمُردَگی طاری ہے جو یہ برسوں سے
آؤ اور مُردہ سے اس دل کو جِلانے آؤ
وہ جہاں برسوں سے بس تنکے و کانٹے ہی اگے
اُجڑے گھنڈر کو گلستان بنانے آؤ
زندگی بن گئی ٹھہرے ہوئے جوہڑ کی طرح
تازہ جھرنے کی طرح اس کو چلانے آؤ
دل کی مٹی ہے کڑی دھوپ تلے جھلسی ہوئی
تم بہاروں کی طرح پھول گھلانے آؤ
جب سے آئی ہے سمجھ دیکھی نہیں کوئی بہار
آؤ پت جھڑ کے نشانوں کو مٹانے آؤ
حسن اور حسن کی شہرت میں ہیں بس چار ہی چاند
اس کی شہرت میں نئے چاند لگانے آؤ
سنتے ہیں چُھولے جو تو مردے بھی جاگ اٹھتے ہیں
میں تِرا ہوں مجھے سینے سے لگانے آؤ
سنتے ہیں بولے جو تو پھول جھڑا کرتے ہیں
آؤ اور گھر میں مرے پھول گھلانے آؤ
نا خدائی کرو کشتی ہے بھنور میں میری
آؤ اور ناؤ مری پار لگانے آؤ
عمر گزری کہ فقط جیتا ہوں میں اپنے لئے
آو اور خود کو مری جان بنانے آؤ
ہاتھ میں ہاتھ دو جانا ہے بہت دور ہمیں
از کراں تابہ کراں ساتھ نبھانے آؤ
یاسمین اور ندیم ایک رہیں اب تا عمر
اس دعا کے لئے سب ہاتھ اٹھانے آؤ
(اس پروپوزل کے انعام میں اللہ نے مجھے دو پیارے پیارے بیٹے دئے ایک محمد انس چھ سال کچھ ماہ دوسرا انعام الحسن تین سال کچھ ماہ کا، خالص زاتی نظم کو یہ سوچ کر شئر کر رہا ہوں کہ شاعر کا کچھ زاتی نہیں ہوتا)
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں






