فیض کیا وہ بھی راستے میں تھے
جو کہ نکلے تھے شام سے پہلے
زندگی بار بار اٹھتی تھی
ہم نہ مانے پہ شام سے پہلے
اسکے ہاتھوں کے مرمریں پےالے
چاند ان میں تھا شام سے پہلے
صبح دم کتنے باخبر ٹہرے
بے خبر تھے جو شام سے پہلے
اسکی آنکھوں میں جا کہ ڈوب گئے
جو ستارے تھے شام سے پہلے
صبح رسوائیوں کی زد میں تھے
معتبر تھے جو شام سے پہلے
شبِ زنداں سے یونہی ڈرنا کیا
جسم زندہ تھے شام سے پہل