شاید ہم ہر غضب کے مستحق تھے کہ انجام بے تاثیر ہو گئے
رہہ گئی تھی کوئی عدم پیروی، کسی کے زلفوں کے اَسیر ہوگئے
کون ہے جو اپنے آزاد زندگی میں دست برداری مانگے
جب دل نے اختیار چھین لیا ہم سُپرد نصیر ہوگئے
یہاں تو سبھی دستکار اندھیروں سے روشنی مانگتے ہیں
جن کے روح میں بینائی تھی وہ بھی منزل کے راہگیر ہوگئے
دکھ اس بات کا نہیں کہ خود سے فراخدلی نہیں
فاصلہ مٹانے کی حجت میں خود بیچ کی جھیر ہوگئے
وقت کتنا قزاق ہے نقش سارے جہاں میں ملیں گے
لیکن درد کی کیسی حکمت عملی کہ ہم بھی حقیر ہوگئے
اتنی معماری نہیں کہ سبقت سے زندگی گذاریں سنتوشؔ
الفت کا معجزہ خریدتے خریدتے کئی لوگ یہاں فقیر ہوگئے