شجر محبتوں کے تُو نے استیصال کیے
جنگجو تھے ہر میدان تُو نے پامال کیے
منہ میں اُنگلی لیے بیٹھ گئے عالم صاحب
عشق نے کس ادا سے کیا سوال کیے
مانا کہ قلت ہے تم جیسوں کی یہاں
کم یاب تھے وہ صنم جو تُو نے استعمال کیے
چنگ و رباب داد دینے پہ مجبور ہوئے
راگ درباری کو چھیڑے کیا کمال کیے
سانسوں کو رہین پہ رکھ کے سودا کیا
مگر تُو نے محبت میں بارہا احتیال کیے
نفع ذرا سا بھی نہ ہوا کاروبارِ عشق میں
صرف دل کے ارمان بطور مال کیے
شاید کہ ہم اِس موڑ پہ مل ہی جاتے
مگر تُو نے فیصلے ہی ہر بار غلط نہال کیے