سگریٹ کے ھر اک کش میں ھے شدت فراق کی
اب رات بھر جلائے گی ہمیں حدت فراق کی
پھر دھویں میں اسکا چہرہ یوں نکھرتا چلا گیا
اب کیا کیا ہمیں دکھائے گی یہ لزت فراق کی
بچھڑے ھوئے چند پل ہیں کہ صدیاں گزر گئیں
اب کتنی دور تک جائے گی یہ مدت فراق کی
یوں آنسوؤں نے کر دیا ھے لرزہ وجود پر
آنکھوں میں جیسے بس گئی ھو رقت فراق کی
اب تو ملا دے ھمکو کہ دن زندگی کے ہیں کم
مجھ میں نہیں ھے باقی اب سکت فراق کی