شریر تھا اجڑ گیا کہیں حسرتوں کے ستم سے
جو عاقل تھا گذرتا رہا فرحتوں کے عدم سے
پرندوں کی دراڑیں سن کر باہر نکلے تھے
یہ کیسا ہوا کا جھونگا گذرا میرے آنگن سے
جس نے اپنے احساس زمانے سے چھپائے رکھے
وہ چبھتا کانٹا پھر گذرا اُس کے دامن سے
گرج کر بادل نے اپنی راہ کہاں موڑ لی
کہ کوئی بھی قطرہ نہ گرا اُس آگم سے
کبھی کبھی یہ دھڑکنیں تیز ہوتی ہیں مگر
مجھے کوئی رنجش نہیں اُس پرائے غم سے
یہ تو وہی روش جس میں ہم سب گم ہیں
پھر بھی روح کہیں نہ ٹکرا کسی ردم سے