لمحہ لمحہ یاس کا اب آس میں ڈھلنے لگا
سوچ کی دیلز پر پھر اک دیا جلنے لگا
کِھل گئی مانندِ لالہ کِشتِ غم کی ہر کلی
شاخِ ہستی کے رگ و پے میں لہو چلنے لگا
اک حقیقت کے بھنور میں خواب کھو کے رہ گیا
جب کبھی تعبیر کا ساحل اُسے ملنے لگا
ہے بڑی بے تاب منزل سوچ کے یہ چل پڑے
راستے میں یاد کچھ آیا قدم رکنے لگا
شمع تیرے پیار کا پھیلا یہ کیسا دائرہ
ہر کسی کا درد و غم یہ دل تیرا سہنے لگا