جشنِ ماضی جو وہ تجدیدِ الفت کر گئے
دل کی دنیا میں وہ برپا قیامت کر گئے
لوٹ کر گزرا ہوا جیسے زمانہ آ گیا
ہر پرانی بات کو زندہ حکایت کر گئے
منزلوں کو بھول کر ہم راستوں کو چھوڑ کر
دشتِ جاں سے تیرے دل تک طے مسافت کر گئے
چودھویں کی رات تھی اور تک رہا تھا چاند بھی
کس قدر وہ پیار سے عہدِ محبت کر گئے
شمع ہم کو راس آئے حادثات عشق یوں
ہوش نہ ہم کو رہا آغازِ افت کر گئے