اِک شوخ سی سی غزل لکھوں کسی کے نام کروں
سوچتا ہوں وہ کون ہے جس کے نام کروں
کوئی تو ہو ایسا میں نے چاہا ہے جیسا
اپنی یہ ہستی اُس کے لئے بےنام کروں
ہم کہیں کسی کو اپنا کوئی کہے ہم کو اپنا
اُس کے پیار میں یہ زندگانی تمام کروں
میرا ہو کوئی ہمسفر میں بنوں کسی کا ہمسفر
عمر بھر کا ساتھ اُس کے نام کروں
میری ہو سوچوں میں وہ میرے ہو ہونٹوں پہ وہ
اُسی کا نام لیکر اپنی صبح و شام کروں
پھیلائے زُلف تو شام ڈھلے دکھائے رُخ تو دن چڑھے
دیکھ کے زُلف و رُخ اپنی صبح و شام کروں
میری ہر غزل کا وہی ہو مطلع وہی ہو مقطع
اپنی یہ شاعری اُس کے لئے تمام کروں
ہر گھڑی تُجھ سے یا خُدا پاکیزہ محبت کی مانگوں دُعا
بُر آئے عاجز کا مُدعا اسی پہ غزل اپنی تمام کروں