شور دل میں برپا ہوا تو کون سنائی دے گا
آنکھ برسی تو کچھ بھی نہ دکھائی دے گا
بیٹھے بیٹھے مند ہو گئیں یہ منتظر آنکھیں
کب یہ سوچا تھا مجھے ایسی وہ جدائی دے گا
چاپ سنتے ہی ہوا روشن تن من دھن اپنا
ابھی چاند نکلا تو نہ جانے کیا رعنائی دے گا
ہم بھول جائیں بھلا کیسے وہ آشیاں اپنے
دل یونہی مچلے گا چمن جب بھی دکھائی دے گا
تو نے کردی ہے عجب توبہ کی یہ تاریخ رقم
عشق نہ کرنا یہ عالم بھی دوہائی دے گا
اب راز دل کے بھلا آنکھوں سے چھپاؤں کیسے
مجرم عشق تو آنکھوں سے دکھائی دے گا
گر گیا آخر اشتیاق پختہ بلند و بالا آشیاں اپنا
کیا خبر تھی کہ اک جھونکا ہی تباہی دے گا