شک کے دائرے میں آ کر مراسم ، مراسم نہ رہے
ہم بھی ہم نہ رہے اور تُم ، تُم نہ رہے
سفر عشق کا جاری ہے آج بھی جوش و خروش سے
مگر دونوں اکیلے ہیں ہم دم ہم قدم نہ رہے
چین تم نے چھین لیا قرار زمانے والوں نے
بہا دیئے ہم نے تمام آنکھوں میں نم نہ رہے
جن کی محفلوں کی شان تھے اب یہ دوڑ ہے
محفلیں اُن کی آباد رہیں ہم مہمانِ بزم نہ رہے
ہر شجر اب اُداس ہے ہر پھول سوگوار ہے
تُم نہ رہے ہم نہ رہے رنگینیاں موسم نہ رہے
میں وہ غریب شخص ہوں لُٹ گئی کمائی جسکی
بڑے دوست ، بڑے یار ،بڑے ہم دم نہ رہے
ہم آرزو کی گود میں سو جاتا تھا خواب اُرڑھ کے
نہال آرزو مر گئی جب میرے وہ صنم نہ رہے