بہت چپ ہو شکایت چھوڑ دی کیا
راہ و رسمِ محبت چھوڑ دی کیا
یہ کیا اندر ہی اندر بجھ رہے ہو
ہواؤں سے رقابت چھوڑ دی کیا
مناتے پھر رہے ہو ہر کسی کو
خفا رہنے کی عادت چھوڑ دی کیا
لئے بیٹھی ہیں آنکھیں آنسوؤں کو
ستاروں کی سیاحت چھوڑ دی کیا
غبارِ شہر کیوں بیٹھا ہوا ہے
میرے آہو نے وحشت چھوڑ دی کیا
فقیروں کی طرف آنے لگے پھر
نمائش گاہِ شہرت چھوڑ دی کیا
میرے کمرے کو معبد کہنے والی
کہاں ہے تُو عبادت چھوڑ دی کیا
یہ دُنیا تو نہیں مانے گی عاصم
مگر تم نے بھی حجّت چھوڑ دی کیا