شکست دے گیا اپنا غرور ہی اس کو وگرنہ اس کے مقابل بساط کیا تھی میری کہیں دماغ کہیں دل کہیں بدن ہی بدن ہر اک سے دوستی یاری جدا جدا تھی میری میں اس کو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے فراز یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی میری