دور جتنے حبیب بیٹھے ہیں
دل کے اتنے قریب بیٹھے ہیں
ایک گہری سی سوچ میں ڈوبے
شہر کے کچھ ادیب بیٹھے ہیں
تیرگی کی شکایتیں لے کر
روشنی کے نقیب بیٹھے ہیں
اٹھتے جاتے ہیں شہر کے بیمار
چین سے بس طبیب بیٹھے ہیں
آستینوں میں ان کے خنجر ہیں
یہ جو بن کےحبیب بیٹھے ہیں
چاند کیوں رات بھر نہیں آتا
جب زمیں پر "مُنیب " بیٹھے ہیں
حاکم وقت کل کھڑے ہوں گے
آج چپ جو ٖغریب بیٹھے ہیں
سارے "فن کار" بن گئے عالم
اب تو گھر میں خطیب بیٹھے ہیں
دوریوں کا وہ فیصلہ کرنے
دیکھ کتنے قریب بیٹھے ہیں
دُکھ جہاں بھر کے جانے کیوں مفتی
بن کے میرا نصیب بیٹھے ہیں