شیشے میں ترے لال پری ہے تو مجھے کیا
Poet: سید عبدالستار مفتی By: سید عبدالستار مفتی, Samundri Faisalabadمطرب سے نوا روٹھ گئی ہے تو مجھے کیا
یہ شمع اگر جل کے بجھی ہے تو مجھے کیا
میں کوہ و بیاباں کا چہکتا ہؤا پنچھی
ہر شاخ ِ چمن پھولی پھلی ہے تو مجھے کیا
موسم کی حسیں تال پہ ناچیں گی فضائیں
یہ بات کسی گل نے کہی ہے تو مجھے کیا
خوشبو سے ہے خالی ابھی دامانِ تصور
تُو باغِ تمنا کی کلی ہے تو مجھے کیا
ہے فخر ابھی اپنے بڑھاپے کے لہوپر
شیشے میں ترے لال پری ہے تو مجھے کیا
اے دوست میں کب تھا غمِ حالات کے تابع
حالات کی رفتار وہی ہے تو مجھے کیا
مقصود فقط دستِ تصور کی زیارت
تصویر میں رنگوں کی کمی ہے تو مجھے کیا
دم توڑ دیا ذوق ِ تمنا نے تڑپ کر
قاتل کی نظر جام بنی ہے تو مجھے کیا
ہوتی ہے ادا ، رسم کہیں میری بلا سے
پروان نئی رِیت چڑھی ہے تو مجھے کیا
میں پیار کے زخموں کا پرستار ہوں گل چیں
ادراک کی شاداب کلی ہے تو مجھے کیا
خاطر میں تلاطم کو بھی لاتا نہیں ہمدم
کشتی کوئی ساحل پہ لگی ہے تو مجھے کیا
روشن ہے مرے دل میں تری یاد کا سورج
جگنو کی شبِ غم سے ٹھنی ہے تو مجھے کیا
مفتی مری آنکھوں نے فقط اشک بہائے
حاصل تجھے دنیا کی خوشی ہے تو مجھے کیا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






