اسی سحر کی کہ جس کا دامن
نظر میں خوشیاں بکھیرتا ہو
اسی سحر کی کہ جس کا آنچل
کنار ہستی کو چھیڑتا ہو
اسی سحر کی کہ جس کے دل میں
حسین لمحوں کی دھڑکنیں ہوں
اسی سحر کی کہ جس میں کھلتی
کسی کی یادوں کی کونپلیں ہوں
اسی سحر کی کہ جس میں کوئی
محبتوں کا رقیب نہ ہو
کہ جس میں پنچھی چہک رہے ہوں
غموں کا موسم قریب نہ ہو
اسی نگر کی تلاش میں ہے
اسی شہر کی تلاش میں ہے
امید صبح دوام لے کر
صبا سحر کی تلاش میں ہے