ابر جو برستا ہے کسی کاجل کے سائے میں
تڑپا کہیں ہوگا کوئی مقتل کے سائے میں
تارا کوئی ٹوٹ کر پھر گرا ہوگا کہیں زمین پر
چاند کو اداس دیکھا ہے بادل کے سائے میں
خوشبو کی مانند آتے ہیں یادوں کے قافلے
ہوئے تھے عہد و پیماں صندل کے سائے میں
معتبر شہر بھر میں ہوں تیرے نام کو لے کر
سونا جیسے رکھا ہو پیتل کے سائے میں
صبا نوید دیتی ہے اب فصل بہار کی مظہر
اب یہ زیست گزرے تیرے آنچل کے سائے میں