صبح سویرے دیکھا ہم نے اک چہرہ شاداب
روشن روشن آنکھیں جس کی وہ چندے ماہتاب
بستی بستی قریہ قریہ مچی ہے جس کی دھوم
ایسا حسن تو عنقا یارو وہ ٹھہرا نایاب
بحرِ وفا میں غرقابی کا تم کو کیسا خوف
قدم اُٹھاوَ بڑھتے جاوَ رستہ ہے پایاب
طور طریقے دنیا والے سب تم کو مبروک
راہِ جنوں کے سیکھ لو ہم سے تم رسم و آداب
تونے غزل میں بدلا ہے جو اپنا یہ بہروپ
فیصل اس پہ خندہ زن ہیں تیرے سب احباب