کسی بھی شام انتظار نہ ہوا تمام
ہمیشہ دل نے کیا بہت سا اہتمام
کبھی ساحل کی نرم سی ریت پر لکھا تھا اس کا نام
کاش کے کسی طرح لگ ہی جاتا تیری محبت کا ہم پر الزام
گزر ڈالی ہم نے اسی خواہش میں اپنی ہر ایک شام
کاش کوئی تو کر ہی دیتا ہمیں بھی بدنام
ساری عمر دل مناتا جشن لے کر یہ الزام
ہاں آج بھی یاد آتے ہو صبح ہو یا شام