تمام رنگ میں ڈوبی فضائے موسمِ گل
اُڑائے پھرتی ہے دل کو ہوائے موسمِ گل
ہمیں پہ چھا بھی گیا اور ہمیں سے چھپتا پھرے
ہمیں سمجھتے ہیں جو ہے ادائے موسمِ گل
سدا بہار ہیں گلشن کسی کی یادوں کے
نہ ابتدا ، نہ یہاں انتہائے موسمِ گل
جنوں ہی مو سمِ گل سے ہے تا بہ موسمِ گل
کسے ہے ہوش یہاں ماسوائے موسمِ گل
شکستِ خوابِ بہاراں سے اب ہے سرگرداں
یہ دل کہ تھا کبھی فرمانروائے موسمِ گل
یہیں لٹا تھا کبھی قافلہ بہاروں کا
یہیں سے ہو تو ہو پھر ابتدائے موسمِ گل
اک اضطراب گریباں کے تار تار میں ہے
کہیں ہے دور مگر ہے صدائے موسمِ گل
بقاۓ موسمِ گل کی دعائیں ہیں طارق
اگرچہ دردِ خزاں ہے عطائے موسمِ گل