صرف دو پل کلۓ ساتھ نبھانے والا
کوئ آۓ مجھے پھر چھوڑ کے جانے والا
اب مرا کام ہے دیواروں سے باتیں کرنا
کوئ ہم سر ہے نہ کوئ حال سنانے والا
ایسا تنہائ کا عالم ہے کہ جینا ہے محال
کوئ دلبر ہے نہ کوئی دل کو دکھانے والا
چلو دو چار نۓ زخم ہی دے جاۓ مجھے
کوئ آتا ہی نہیں اب تو ستانے والا
اب ملا بھی تو نہ پہچان سکے گا مجھ کو
رنگ اپنا جو لیا اس نے زمانے والا
ٹوٹے دل سے تو یہی روز صدا آتی ہے
ہے یہاں کون وفاؤں کو نبھانے والا
بس یہی سوچ تو سونے نہیں دیتی مجھ کو
جانے کب آۓ گا منہہ پھیر کے جانے والا
زندگی اب تو گزرتی ہی نہیں درد بنا
کوئ پھر آۓ مجھے پھر سے رلانے والا
اب میں روٹھوں بھی تو کس شخص سے روٹھوں باقرؔ
اب رہا کون یہاں مجھ کو منانے والا