خدا کرے کہ وہ آب و ہوا نہ راس آئے
صنم کو غیر کا وہ آسرا نہ راس آئے
ہمارا کیا ہمیں جینا ہے اور جی لیں گے
ستم ظریف کو مہرو وفا نہ راس آئے
ذرا سا چین ہمارے نصیب میں نہ رہا
اسے قرار کا وہ واسطہ نہ راس آئے
ہمیں جلا کے وہ خود آپ اپنی آگ جلے
اسے فرار کا وہ راسطہ نہ راس آئے
ستم کہ شہر خموشاں بنا دیا دل کو
اسے وہ رونق شہر جدا نہ راس آئے
ہزار بار بہاروں کا گزر ہو لیکن
اسے چمن کی وہ باد صبا نہ راس آئے
خدا کرے کہ وہ آ جائے لوٹ کے طاہر
دیارِ غیر کی اسکو فضا نہ راس آئے