ضیائے ماہ و انجم کیا، جمالِ یار کے آگے
نہیں ہے پیار کوئی بھی ہمارے پیار کے آگے
فقیری جانِ جاناں کی عبادت ہے، جبھی اُس کے
سوالی بن کے بیٹھا ہوں در و دیوار کے آگے
جو پلکوں میں بِٹھاتا ہے سُلاتا ہے مجھے ہر پل
میں نظروں کو بِچھا لیتا ہوں اُس دلدار کے آگے
نہیں نعمُ البدل کوئی تری مخمور آنکھوں کا
چئہ معنی دید حوروں کا ترے دیدار کے آگے
سُنا ہے حُسنِ یوسف کا کوئی ثانی نہیں لیکن
ٹھہر سکتا نہیں کوئی بھی حُسنِ یار کے آگے
وہ جب بھی سامنے آئے تو یہ احساس ہوتا ہے
کہ گویا میں کھڑا ہوں اِک حسیں گلزار کے آگے
جو دھمکاتا ہے دیواروں میں چُنوا دوں گا میں تجھ کو
میں سینہ تان کے جاتا ہوں اُس سردار کے آگے
پہن کر جلوہ گر ہونے سے ہوتا ہے جہاں روشن
نہیں قیمت کسی ہیرے کی اُس کے ہار کے آگے
وہ کہتا ہے نظارہ چاندنی کا ہے بڑا دلکش
میں کہتا ہوں نہیں کچھ بھی ترے رخسار کے آگے
دکھا کر بے رُخی برسوں تلک اک سنگدل نے پھر
جُھکائی ہے جبیں آخر مرے اشعار کے آگے
یوں تنہا ہجر کی راتوں میں آنسو مت بہانا یاد
گل و گلزار بھی تو ہیں رہِ پُر خار کے آگے