طبیبِ عشق اک نگہ ادھر
ہو تسخیرِجان وبدن
اے سوزِالفت وتشریحِ ثنا کے دائی
سخاوتِ عثمانِ غنیؓ تجھ میں پائی
کر کچھ مداوا اے شریک ِ غم
کشکول دھرا ہے ہاتھ پر
سوالِ سائل ہے منتظر
نگاہ یاسیت سے بیاباں
بتا اے صاحب عقل! کہ تو ہے ہوش مند
ہے مال وزر نامعتبر
ہے جسم تو اِدھر، مگر ہے روح کدھر؟
بھٹک رہی وہ دربدر
تو ہی کچھ اس کی فکر کر
گُلوں کا پیرہن
مجھے دان کر
کہ خوشبو اٹھے جب جسم سے
تو لوٹ آئے روح ادھر
جو فنا کی سمت ہے رواں
کبھی اِس ڈگر، کبھی اُس ڈگر
چڑھے سیڑھیاں وہ عروج کی
مجھے ڈر لگے، اٹھے ہوک سی
کہیں چھو نہ لے وہ آسماں
کہیں چھو نہ لے وہ آسماں