طوفانِ غم نے کیا پُر ملال افسردہ
کسی کا دل تو کسی کا خیال افسردہ
ہوائے غم سے ہوا آج میرے گلشن کے
حسین پھولوں کا عکس و جمال افسردہ
اتر کے روح میں دیکھوں تو ہر کوئی انساں
ہے آج نکہتِ غم سے نڈھال افسردہ
تمام عمر جو تنویرِ مسکراہٹ تھا
ملا وہ شخص ہمیں اب کے سال افسردہ
ہے اور بات وہ غم کو چھپائے بیٹھے ہیں
وگرنہ ان کا بھی ہے مجھ سا حال افسردہ
تمہارے غم سے گُل و کہکشاں ستارے اور
ہیں دیکھے میں نے یہ شمس و ہلال افسردہ
نگاہِ غور سے دکھو تمہارے دیوانے
ہیں مشرقین جنوب و شمال افسردہ
چھپائوں تم سے حقیقت میں جعفری کیسے
ہوں دیکھ بدلی ہوئی ان کی چال افسردہ