رسم وفا نبھانے کی عادت انہیں نہیں
دل میں جگہ بنانے کی عادت انہیں نہیں
شاید ادھر سے وہ ابھی گزرتا چلا گیا
خوشبو اپنی چھپانے کی عادت انہیں نہیں
کئی رنگ کئی موسم گزرے ہیں اس طرح
شاید پھول سجانے کی عادت انہیں نہیں
ہم انتظار میں انکی جلاتے رہے چراغ
راتوں کو اٹھ کے آنے کی عادت انہیں نہیں
آئے تو طوفاں کی طرح گزرتے چلے گئے
شاید لوٹ کے آنے کی عادت انہیں نہیں
جاذب دیکھتے ہی رہے انکے چہرے کیطرف
شاید نظر ملانے کی عادت انہیں نہیں