کتنی پیاری لگتی ہے
وہ لڑکی عام سی دکھِتی ہے
عام سی مہندی عام سے ہاتھ
عام سے لب زلف اور رُخسار
عام سی ہیںآنکھیں اُس کی
اور ان آنکھوں میں جاگتے خواب
جلتا سورج تپتی دوپہر
گھائل ہوگئے کومل پیر
عام سا چہر عام سا روپ
عام ہنسی ہونٹوں پر دھوپ
عام سی باتیں کرتی ہے
وہ خاص نہیں لیکن پھر بھی
کم نہ کسی سے دکھِتی ہے
کتنی عام سی لڑکی ہے۔