عبث زندگی میں کچھ اُدھار رہہ جاتا ہے
چہروں پر پھیل کر پھر اِنتشار رہہ جاتا ہے
ہم اپنے عمل تصور سے بہت کر جاتے ہیں
مگر کہیں نہ کہیں تھوڑا سُدھار رہہ جاتا ہے
قابل دادرسی کو واجب بھی ٹھہراؤ لیکن
انصاف کی عدالتوں میں حقدار رہہ جاتا ہے
لوگ ناآشنائی طرف آج بھی بھاگتے ہیں
بس بالضرور وسعتوں کا مقدار رہہ جاتا ہے
لبوں کی لرزشیں تو روک بھی لیتے ہیں مگر
غم افسردگی آنکھوں میں خمُار رہہ جاتا ہے
گذرے لمحوں کا تم حساب بھی کرلو سنتوش
کئی بے سود خیالوں کا شُمار رہہ جاتا ہے