عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا
Poet: ناصر کاظمی By: مصدق رفیق, Karachiعشق جب زمزمہ پیرا ہوگا
حسن خود محو تماشا ہوگا
سن کے آوازۂ زنجیر صبا
قفس غنچہ کا در وا ہوگا
جرس شوق اگر ساتھ رہی
ہر نفس شہپر عنقا ہوگا
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
کون دیکھے گا طلوع خورشید
ذرہ جب دیدۂ بینا ہوگا
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہوگا
پھر سلگنے لگا صحرائے خیال
ابر گھر کر کہیں برسا ہوگا
پھر کسی دھیان کے صد راہے پر
دل حیرت زدہ تنہا ہوگا
پھر کسی صبح طرب کا جادو
پردۂ شب سے ہویدا ہوگا
گل زمینوں کے خنک رمنوں میں
جشن رامش گری برپا ہوگا
پھر نئی رت کا اشارہ پا کر
وہ سمن بو چمن آرا ہوگا
گل شب تاب کی خوشبو لے کر
ابلق صبح روانہ ہوگا
پھر سر شاخ شعاع خورشید
نکہت گل کا بسیرا ہوگا
اک صدا سنگ میں تڑپی ہوگی
اک شرر پھول میں لرزا ہوگا
تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے
چاندنی رات نے دیکھا ہوگا
دیکھ کر آئنۂ آب رواں
پتہ پتہ لب گویا ہوگا
شام سے سوچ رہا ہوں ناصرؔ
چاند کس شہر میں اترا ہوگا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






