عشق سر پر سوار ہوا چاہتا ھے
جینا اور دشوار ہوا چاہتا ھے
دل کی حالت زار مت پوچھو۔
اپاہج سا لا چار ہوا چاہتا ھے۔
کوئی پرساں حال نہیں اور ۔
درد حدے بیشمار ہوا چاہتا ھے۔
خود کیے جاتا ھے خود سر ستم۔
دل مبتلائے آزار ہوا چاہتا ھے۔
کیا مصیبت ھے کہ اس کے ہوتے۔
دل تنہائی کا شکار ہوا چاہتا ھے۔
پہلے کیا کم تھیں باہم دوریان ۔
جو اور گریزاں یار ہوا چاہتا ھے؟
ھے کٹھن انتظار مگر کیا کیجیئے؟
انتظار در گر انتظار ہوا چاہتا ھے۔
یہ کس کی آمد کا منتظر ھے دل؟
ھے کون جسکا انتظار ہوا چاہتا ھے
بچوں سی ضد پراتنا اترانا کیسا؟؟
بے عقلوں میں شمار ہوا چاہتا ھے؟
کیوں نہ ہو غیر سر پریچےدل کا؟
اپنا تو بے اعتبار ہوا چاہتا ھے۔۔۔
ان سے بچھڑنا ھے عنقریب
کیا تو اے دل تیار ہوا چاھتا ھے؟
عشق کی تمہید اسد کہاں تک لکھوں؟
ہاتھ قلم سے بے زار ہوا چاہتا ھے۔