عشق مجھ کو جو والہانہ ہوا
لہجہ اس کا بھی صوفیانہ ہوا
آج غیروں کے پاس بیٹھا ہے
میرا جس سے تھا عاشقانہ ہوا
آگ جلتی رہی مقدر میں
حملہ حسرت پہ قاتلانہ ہوا
پھول مرجھا گئے بہاروں میں
پھر بھی گلشن مرا خزاں نہ ہوا
میرے غم سے وہ کیوں شناسا ہو
جو تعارف ہی غائبانہ ہوا
سر کے نیچے یہ تیری یادوں کا
ایک بھیگا ہوا سرہانہ ہوا
چاند تارے تو ہاتھ تھے وشمہ
کیوں مقدر مرا ضیا نہ ہوا