عشق میرئے نے بے حال ہونا ہے
میرا جینا بھی محال ہونا ہے
تیرئے ستم کی کوئی حد نہیں
میرئے حوصلوں نے لازوال ہونا ہے
مجھے نہیں ہے غم کہ میری حیات راہیگاں ہے
میری وفاؤں نے تو دُشمن کے لیے بھی مثال ہونا ہے
مجھے کیاخبر کہ اُس کے دل کی کیا کہانی ہے
مجھے تو بس اُس کے دکھوں پہ ملال ہونا ہے
اُسے شکست ہو مجھے یہ منظور نہیں عاصمی
مجھے تو اُس کی بس ڈھال ہونا ہے