عشق میں ایسی پائیداری ہے
تیری لغزش بھی ہم کو پیاری ہے
اس کا منہ موڑنا قیامت تھا
دل تڑپتا ہے زخم کاری ہے
تیرا کردار تو ہے معمولی
اور دستار کتنی بھاری ہے
آج دن بھر اداس اداس رہا
تم نے کیسے نظر اتاری ہے
زندگی کھیل ہے ڈرامے کا
ہر کھلاڑی پہ ذمہ داری ہے
کوئی اپنا نہیں لگا مجھ کو
آشنا سب ہیں سب سے یاری ہے
سربلندی عطا کرے گی تمہیں
یہ جو فطرت میں انکساری ہے
اس کا جنت سے واسطہ ہی نہیں
حسن اخلاق سے وہ عاری ہے
کھڑکیاں کھول دو ذرا اعجازؔ
اس نے شیشے پہ چونچ ماری ہے