عشق میں جو ہوئے ستم اچھے لگے راہ الفت میں پیچ و خم اچھے لگے انہیں چاہا تھا ہم نے ٹوٹ کر جو کئے انہوں نے کرم اچھےلگے بت کدے میں دیکھ کر حسیں چہرے سارے پتھر کے صنم اچھے لگے خاموشی چھا گئی اس محفل میں ان کے دھیمے دھیمے قدم اچھے لگے