عشق میں نام کر دیا میں نے
خود کو برباد کر دیا میں نے
کس میں ڈھونڈوں اب ایسی رنگت کو
جسے بے رنگ کر دیا میں نے
چھیل کر خارِ زار سے خُود کو
سر تا پاء زخم کر دیا میں نے
جانے کس سے مری لڑائی تھی
جس میں خُون اپنا کر دیا میں نے
میرے شر سے نہیں بچا کوئی
کیا سے کیا ظلم کر دیا میں نے
اپنی ہر اِک بہار کا ہر دن
پت جھڑوں میں بسر دیا میں نے
مجھے جس کام سے ڈرایا گیا
وہ بِلا خوف کر دیا میں نے
میں کہ اِس حد تک اُس کو چاہ بیٹھا
اسے پاگل ہی کر دیا میں نے
اپنے ہاتھوں سے اپنا شہرِ دل
خود ہی تاراج کر دیا میں نے
تجھے اپنا جنوں بنا کر یار
خُود کو بیکار کر دیا میں نے
جس پہ بے بس رہی مسیحائی
وہ مرض خُود کو کر دیا میں نے
جب نہیں بس چلا تو اُس کے سر
سارا الزام دھر دیا میں نے
عشق میں آپ بھی ذلیل ہوا
اور اُس کو بھی کر دیا میں نے
اِک محال آرزو کو پانے میں
زیست کو زہر کر دیا میں نے
عشق و دنیا کی جنگ لڑ لڑ کر
سر تا پاء لال کر دیا میں نے
جان و دِل سے نکال کر تجھ کو
خود کو آدھا ہی کر دیا میں نے
تم تو انمول تھیں مگر افسوس
کتنا بے دام کر دیا میں نے
میری جاں تُم تو وہ حقیقت تھیں
جسے اِک خواب کر دیا میں نے
ہر دہن سے نکال کر اپنا
نام گمنام کر دیا میں نے