عشق و محبت کے مرحلے تہہ کر کے شاعر بنا ہوں
Poet: NEHAL GILL By: NEHAL , Gujranwalaعشق و محبت کے مرحلے تہہ کر کے شاعر بنا ہوں
زندگی کے لئے کہی بار میں مر کے شاعر بنا ہوں
پہلے میں نے درد جمع کئے دل کے گوڈام میں
اشکوں کے سمندر آنکھوں سے بھر کے شاعر بنا ہوں
کہی ارمان شہید ہوئے میرے اِس دور میں
وقت کے اَنگیاڑوں پے گزر کے شاعر بنا ہوں
سولہ سال تک میں دیکھتا رہا دُور سے اِسے
میدانِ عشق میں پھر اُتر کے شاعر بنا ہوں
تراشا گیا ہوں میں نفرتوں کے ازاروں سے
میں محبتوں میں بکھڑ کے شاعر بنا ہوں
شعریت یونہی نہیں آئی مجھ میں یارو
زندگی کی کتاب میں پڑھ کے شاعر بنا ہوں
وصل نصیب نہ ہوئے مجھے اُس بے وفا کے
میں فراق کی صولی پے چڑھ کے شاعر بنا ہوں
شاید کہ اب سبھی جان جائے گےسبب اُداسی کا
میں ہجر کی آگ میں سڑ کے شاعر بنا ہوں
کومل پَری کوئی خاص لکھنا جنون ہے میرا اب
میں اُس کے ہی تو کر کے شاعر بنا ہوں
اُس بے وفا کا ذکر کیوں نہ کروں شاعری میں
میں جس کی وفائوں میں ہر کے شاعر بنا ہوں
نہال غیروں سے مجھے کوئی خوف نہ تھا کبھی
میں تو اپنوں سے ہی ڈر کے شاعر بنا ہوں
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






