عشق کا شعلہ جواں ہوتے ہی دل میں جل اُٹھا
Poet: N A D E E M M U R A D By: N A D E E M M U R A D, UMTATA RSAتنہا تنہا اتنے تھے دونوں کہ تنہائی نہ پوچھ
کون تھا اس سارے افسانے میں ہرجائی نہ پوچھ
دل ہمارا ہے سمندر اسکی گہرائی نہ پوچھ
اور اس گہرائی میں کتنی ہے تنہائی نہ پوچھ
ہم نے چاہا تھا تمہیں کہ چاہتے تھے ہم تمہیں
اتنی سی ہی تو خطا تھی ، اتنی رسوائی ، نہ پوچھ
ایک تجھ سے آشنا ہونے سے دیکھو کیا ہوا
کتنے لوگوں سے ہوئی میری شناسائی نہ پوچھ
اک مسیحا کی محبت میں بہت گھائل ہوئے
وہ تدارک کو نہ آیا کچھ مسیحائی نہ پوچھ
موت کے منظر کو کوئی دیکھتا ہے غور سے
اُس کا کہنا " تجھ سے ملنے کو نہ آپائی " نہ پوچھ
ایک میلا ہے مرے چاروں طرف گر دیکھیئے
اک ترے نا ہونے سے کتنی ہے تنہائی نہ پوچھ
تھی خبر تجھ تک پہنچنے میں ہیں نا ہمواریاں
کیا خبر تھی اتنی ہوگی آبلہ پائی نہ پوچھ
عشق کا شعلہ جواں ہوتے ہی دل میں جل اُٹھا
مسئلہ یہ ہے کہ کس نے آگ بھڑکائی، نہ پوچھ
دل نہ کوئی ٹوٹ جائے اس لیئے خاموش ہوں
جھوٹ سے حاصل نہیں کچھ اور سچائی نہ پوچھ
جستجوئے نقص ہے شیوا مرا نقاد میں
مجھ سے میرے اپنے بارے میں بھی اچھائی نہ پوچھ
زندگی کچھ کٹ گئی کچھ کاٹ ہی لیں گے مگر
بن ترے کٹتی ہے کیسے ، روح فرسائی نہ پوچھ
کوئی مخلص دوست چارہ گر تو لاؤ ڈھونڈ کر
چاروں جانب دیکھو کتنے ہیں تماشائی نہ پوچھ
جو بھی گزری ہم نے بن پوچھے بتا ڈالا ندؔیم
اس سے اچھا کیوں نہیں کہہ پائے ہم بھائی، نہ پوچھ
4اپریل2013ء
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






