جب بھی عشق کی لذت میں غزل کہتا ھوں
میں وفائے یار کی شہرت میں غزل کہتا ھوں
یہ بھی اک بہانہ ہے اسے یاد رکھنے کا
اس جان تمنا کی محبت میں غزل کہتا ھوں
وہ جو چھپ چھپ کے سنتا ہے میری باتیں
اس چاند چہرے کی حدت میں غزل کہتا ھوں
دل جذبات کا اک بازار سا لگتا ہے
میں غم عشق سے نفرت میں غزل کہتا ھوں
کیا جنوں خیزی ہے جواں رت میں
بھڑکتے احساس کی شدت میں غزل کہتاھوں
وہ جو آج تک میرا نہ ھو سکا عاصم
آج بھی اسی کی چاہت میں غزل کہتا ھوں